Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر4

اس نے غصے سے آگ بگولا ہوتے ہوئے ،اپنے طور میں عنقا کو مخاطب کیا۔۔۔ اور ایک بار پھر تڑپ کر رو دیا۔
×××××
اب وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، بے چینی سے، بس یہی سوچتا تھا کہ آخر کیسے وہ اپنا انتقام لے۔۔!! کیسے اپنے اندر جلتے الاؤ کو تسکین پہنچائے۔۔!!
 اس کا خیال تھا کہ وہ عنقا سے انتقام لے کر ہی پُر سکون ہو پائے گا۔۔!! اسے گمان تھا کہ اُسے، اس کا سکون عنقا میں ملے گا ۔۔!!
یہ تو وقت نے بتانا تھا کہ، وہ اپنی سوچ ،اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں۔۔!! درست ہے یا نہیں۔۔!! اگر سچا ہے ،درست ہے تو کس طرح۔۔؟؟ اگر غلط ہے تو کس طرح۔۔؟؟
××××××
عدیل نے، اس کے لیے بہت سی سزائیں سوچیں پر اُسے، عنقا کے لیے کوئی معقول سزا نہیں مل کے دی۔
وہ ابھی بھی۔۔ مسلسل۔۔ غضب ناک سے تیور لیے اسی کے متعلق سوچ رہا تھا کہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، اسے ایک طریقہ سُوجھا، اس ایک مکروہ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔
ساتھ ہی، اس کے تاثرات تلخ ہوئے، اس کے انداز میں ایک عجیب کڑواہٹ ابھری۔ ذہن شیطان کی شاگردی میں پناہ لینے لگا اور پھر اس نے وہ کرنے کی ٹھانی جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اس نے وہ کرنے کا سوچا جو اسے سوچنا بھی نہیں چاہیئے تھا۔۔!!
"تیار رہو۔۔ لڑکی۔۔!! تم نے مجھ سے میری محبت چھینی ہے ناں۔۔!! میں بھی تمہارا کارنامہ تم پر لوٹاؤں گا۔۔!! میں بھی وہی کروں گا جو تم نے کیا۔۔!!"
وہ شدت کا غضب لیے، اپنے خیالوں میں ہی ، اُسے ، اُس کی زندگی تباہ کرنے کا عندیہ دے گیا۔
××××
اس کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔۔ وہ اپنے فیصلے پر ملنے والے متوقع ری ایکشنز کے متعلق سوچ رہا تھا، نتائج کا اندازہ لگا رہا تھا اور اُن نتائج کی بنیاد پر، اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے مختلف طریقوں پر بھی غور کر رہا تھا۔
بہت سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا، فوراً اپنے کمرے سے باہر نکلا اورچِلّا چِلّا کر، اپنے مام دینے لگا۔
رات کے ایک بجے کا وقت تھا، اس کے مام ڈیڈ سمیت عادل بھی ہڑبڑاتا ہوئے اپنے روم سے باہر نکلا۔ 
"کیا ہوا بیٹا۔۔؟؟" اس کی مام نے پریشانی سے پوچھا۔
"مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔!!" لہجہ سرد تھا،
"ایسی کونسی ضروری بات ہے جو تم نے ایک دم اُدھم ہی مچا دیا۔۔!!" مصطفیٰ صاحب   کو اس کا چیخنا بہت برا لگا تھا۔
عدیل نے اپنے ڈیڈ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا، اس نے سرد   مہری سے، عادل پر نظریں گاڑھے، پھر سے اپنا جملہ دہرایا،"مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔!!" اس بار وہ، "آپ دونوں" پر زور دیتے ہوئے بولا۔
اس کا عجیب سا رویہ ، عادل کی سمجھ سے باہر تھا۔
اس نے سوچا کہ ہوگی کوئی پرائیویٹ بات۔۔!! اس لیے سر جھٹکتے ، وہ وہاں سے چلا گیا۔
"بولو۔۔ کیا مسئلہ ہے۔۔!!" مصطفیٰ صاحب کو اس کے رویے پر غصہ آ رہا تھا۔
"میرے خیال سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔" وہ مسلسل، سسپینس بڑھاتا جا رہا تھا۔
اس کا سرد، سپاٹ اور کاٹ دار لہجہ ، فوزیہ بیگم کو تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔
عدیل اپنی بات کہتا ،۔ لاونج کی جانب بڑھا۔ فوزیہ بیگم کو تو ہول اٹھ رہے تھے کہ اتنی رات گئے، اس کو ایسی کیا ضروری بات یاد آ گئی۔۔!!
مصطفیٰ صاحب اور فوزیہ صاحب بھی اس کے پیچھے چل دیے۔
 ××××
وہ لاونج کے صوفے پر آ کر بیٹھا۔ اس کے تاثرات تلخ سے تلخ تر ہوتے جا رہے تھے۔ اس نے اس وقت اپنا ایک اور گنہگار بھی ڈھونڈ لیا تھا، جس کی وجہ سے ، اسے اپنے فیصلے پر تھوڑی سی جو شرمندگی تھی، وہ بھی کہیں غائب ہوگئی۔۔!! اسے کچھ دیر پہلے، تھوڑا سا گلٹ محسوس ہوا تھا کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے۔۔ سراسر غلط ہے۔۔!!  
لیکن اب ، اپنا نیا گناہگار تلاشنے کے بعد ، وہ خود کو حق پر ہونے کی تسلی دے چکا تھا۔ 
اس کے مام ڈیڈ ، اس کے کچھ بولنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔۔ جبکہ وہ اپنے ہی انتقامی خیالات میں، گِھرا، مسلسل جھلس رہا تھا۔
"بیٹا کچھ بولو بھی۔۔" فوزیہ بیگم نے پریشانی سے کہا۔
"مجھے عنقا سے شادی کرنی ہے۔۔!!" اس کا لفظ لفظ، وحشت سے بھرپور تھا۔
اس کے مام ڈیڈ بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ فوزیہ بیگم شاکڈ تھیں، ان کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس نے آخر کہا کیا ہے۔۔!! یا شاید وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھیں۔
مصطفیٰ صاحب کو تو اس کی عقل پر شک ہوا۔۔!!
وہ دونوں حیران و پریشاں، آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہے تھے۔ 
عدیل کو  ان کے رد عمل، ان کے حیرت زدہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے۔۔ وہ ان کی حالت سے بے نیاز، نظریں زمین پر گاڑھے ، ان کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔ 
"دماغ تو صحیح ہے تمہارا۔۔!!" مصطفیٰ صاحب، جیسے ہوش میں آئے تھے۔
"جی ڈیڈ۔۔ میں بالکل نارمل ہوں۔۔!!"عدیل نے، ان کا غصہ، خاطر میں لائے بغیر، سختی سے جواب دیا۔
"دیکھیں۔۔ اگر آپ لوگوں نے انکار کیا، یا میری بات نہ مانی تو میرے پاس اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔۔ اور سن لیں۔۔!! پھر انجام کی ساری ذمہ داری، آپ لوگوں پر ہو گی۔۔!!" اس نے تلخی سے دھمکی دی۔
فوزیہ بیگم کو تو اس سے، اس کے ارادوں سے خوف محسوس ہوا۔ "بیٹا۔۔ تم جانتے ہو۔۔ وہ تمہارے بھائی کے ساتھ منسوب ہے۔۔ پھر بھی۔۔؟؟" انہوں نے تکلیف بھرے لہجے میں پوچھا۔۔ 
انہوں نے اس کی، ایسی تربیت تو نہیں  کی تھی کہ وہ ایسی گری ہوئی حرکت کے متعلق سوچا۔۔
"مجھے کچھ نہیں سننا۔۔!! آپ لوگ بتائیں کہ آپ میری ہیلپ کریں گے یا نہیں۔۔؟؟" 
"نہیں" جواب ، مصطفیٰ صاحب کی طرف سے آیا تھا۔
جسے سنتے ہی، عدیل نے اپنی پینٹ کی پاکٹ سے، آٹھ انچ کا، تیز دھار والا چاقو نکالا، اور لمحے کی دیر کئے بغیر، اپنی کلائی پر رکھ کر، بے رحمی سے اپنی نبض کو چیر ڈالا۔
خون کی دھاریں، ابل ابل کر باہر نکلیں، اور اس کے کپڑوں سمیت سارا فرش اس کے خون سے رنگین ہوا ۔
اس کے مام ڈیڈ، چند لمحوں کے لیے تو شدید سکتے میں آئے۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے، اپنی تکلیف کو برداشت کرتا، ان کے حیران چہروں کو تک رہا تھا۔
وہ دونوں بیک وقت اس کی طرف بڑھے، فوزیہ بیگم کے انداز میں تڑپ، اور مصطفیٰ صاحب کے انداز میں شدید غضب تھا۔
انہیں، اپنے بیٹے سے ایسی بیوقوفی کی امید نہیں تھی۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے میرے قریب آنے کی،" وہ بری طرح چلایا تھا، درد اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ مگر وہ پھر بھی ڈھیٹ بنا، سہہ رہا تھا۔

   1
0 Comments